جیٹھ پور
جیٹھ پور گاوں حجرہ شاہ مقیم سے ۱۴ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک خوبصورت اور تاریخی گاوں ہے
یہ گاوں دور سے دیکھنے پر ایسے نظر آتا ہے جیسے کسی پہاڑی پر گاوں کو آباد کیا گیا ہو اور یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے کیونکہ جیٹھ پور گاوں سطح زمین سے تقریبا ۱۲"۱۳ فٹ اونچائی پر ہے اس کی بلندی کے بارے میں بہت سی کہانیاں سنائی جاتی ہیں جیٹھ پور گاوں میں تقریباً ساری برادریوں کے لوگ امن کے ساتھ رہ رہے ہیں جن میں میئو،بھٹی،آرایئں کمہار،میں،قصاب،انصاری شامل ہیں جیٹھ پور گاوں یونین کونسل ۶۷ کا سب سے بڑا گاوں ہے کونسل کا دفتر بھی اسی گاوں میں واقع ہے اس کے علاوہ لڑکوں کے لیے ہائی سکول اور لڑکیوں کے لیے مڈل سکول کی سہولت بھی موجود ہے اس کے علاوہ یہاں کے بازار میں روزمراہ استعمال کی تقریباً سب اشیا مل جاتی ہیں
رنجیت سنگھ نے جب سب سے پہلے پنجاب کو متحد کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے اس نے طاقت کا استعمال بھی کیا، بات چیت اور لین دین کے علاوہ رشتہ ناطہ کرنے کی راہ بھی اپنائی۔ پنجاب کو متحد کرنے کی خاطر رنجیت سنگھ نے سکھوں ہندوﺅں اور مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے رجواڑوں کو بلا کسی امتیاز کے ختم کر کے پنجاب کا حصہ بنا لیا۔مذہب کی بنیاد پر کسی سے کوئی رورعایت نہیں برتی۔ اردگرد کے وہ علاقے جو افغان حکمرانوں نے پنجاب سے چھین کر اپنی سلطنت میں شامل کیے تھے وہ بھی واپس لے لیے۔
سکھ سرداروں سے جو علاقے چھینے گئے وہ مندرجہ ذیل تھے۔ ہریانہ (ہوشیار پور)، جلال پور، اسلام گڑھ، بجوات، چونیاں، دیپالپور، ستگھرا، جیٹھ پور، حویلی، محی الدین پور، جالندھر، پٹی، فتح گڑھ، سجان پور، حاجی پور، مکیریاں راولپنڈی، سری گوبند پور، میانی اور امرتسر۔
اسی طرح سے ہندو راجاﺅں سے کانگڑہ، سید گڑھ، کوٹلہ، جنڈیالہ، کٹھوعہ اور نور پور چھینے اور مسلمان سرداروں سے خوشاب، ساہیوال، اٹک، جھنگ، قصور اور تلمبہ ، کشمیر، پشاور، اور اس کا نواحی علاقہ، ملتان اور اس کے مضافات افغان حکومت کے باجگزار علاقے تھے۔انہیں بھی مہاراجہ نے پنجاب میں شامل کر لیا (جاری ہے) اکرم سردار میئو