حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں، کسی دن ایک بدوی آیا، وہ مسجد نبوی کے صحن میں پیشاب کرنے لگا، صحابہ کرام اس پر چیخ پڑے: یہ کیا کیا ؟یہ کیاکیا؟مارو اسے !مارو اسے پکڑو اسے!
رحمت علی نے فرمایا: رکو اسے پیشاب کر لینے دو! بیچ میں اسے مت روکو ! جب وہ پیشاب کر چکا ہےتو اسےآپ نے قریب بلایا ،اور نہایت شفقت سے فرمایا: یہ مسجدیں پیشاب کرنے یا کوئی اور گندگی کرنے کے لیے نہیں بنائی جاتیں، یہ تو قرآن پاک پڑھنے اور اللہ کا ذکر وعبادت کرنے کی جگہیں ہوتی ہیں ! آپ نے کس صحابی سے فرمایا ،اس پر ایک ڈول پانی ڈال دو۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: وہاں کی مٹی کھود کر پھینک دو ۔ پھر آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا: لوگوں کو سکھاو سمجھاؤ، ان کے لئے آسانیاں پیدا کرو، انہیں پریشانیوں میں نہ ڈالو۔ (علمواويسروا ولا تعسرو) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں، کہ ایک بار وہ رحمت عالم کے ساتھ کہیں جا رہے تھے،آپ کے جسم اطہر پر نجران کی بنی ہوئی موٹے کناروں والی چادر تھی، راستے میں ایک بلی مل گیا، اس نےآپ کی چادر کا ایک سرا پکڑ کر کر اتنی زور سے جھٹکا دیا ،کہ اس کی رگڑ سے آپ کی گردن مبارک پر سرخ سرخ گہرے نشان پڑ گئے! اس نے چادر سے جھٹکا دے کر کہا؟محمد اللہ کا جو مال تمہارے پاس ہے اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ! رحمت عالم نے اس کے اجڈ پن کا کچھ بھی برا نہیں مانا ،آپ کو اس سے جو تکلیف پہنچی تھی اس کا کچھ بھی خیال نہیں کیا ،اس کی طرف دیکھ کر ہنسے مسکرائے ،پھر فرمایا: اس کی ضرورت پوری کی جائے! یہ تھی آپ کی رحمت اور شفقت کی دو مثالیں آپ کے پیار اور محبت کے دو نمونے، آپ کی پوری زندگی اسے شفقت اور پیار سے بھری پڑی ہے ۔
کیسا پیار مشفقانہ ،اور کیسا فطری انداز ہوتا تھا لوگوں کو سمجھانے اور سکھانے کا !
لوگ کیسی کیسی غلطیاں کرتے مگر ان کی بڑی سے بڑی غلطی پر بھی آپ کو غصہ نہ آتا ،بلکہ جتنی بڑی غلطی ہوتی ، اتنی ہی زیادہ قابل دید ہوتی آپ کی شفقت و بردباری !آپ کی محبت اوردلسوزی !آپ کا عفو درگزر! اسی شفقت و بردباری، اور اسی محبت و دلسوزی سے آپ نے ان شتربانوں اور بھیڑوں بکریوں کے چرواہوں کو کچھ سے کچھ بنا دیا، جو لوگ علم وتمدن کے نام سے ناآشنا تھے ،دیکھتے دیکھتے انہیں قوموں کا معلم اور علم وتمدن کا امام بنا دیا! آپ پر ایمان لانے والوں کی تعداد سوا لاکھ سے اوپر تھی، اور ان سب کو آپ نے علم و حکمت سے مالا مال کردیا۔ اس جاہلیت زدہ ماحول میں جو لوگ آپ پر ایمان لاتے، کچھ دنوں میں ان کی کیفیت ایسی ہو جاتی، جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں چمکتے ہوئے جگنو!Italic text