ماں تم جانتی ہو

ہم نےفرشتوں کو نہیں دیکھا

مگرتمہیں دیکھا تو جانا کہ

کیونکر خاک افضل ہے

تم ہی ہو

کہ ایک مٹی کے پیکر کو

خونِ جگر سے سینچ

محبت کی نمو دیکر

پرواں چڑھاتی ہو،،،

ماں!

تمہاری آغوش ہی تو تھی

جہاں جانا خدا کیا ہے

خدا سے تم ملاتی ہو

وفا کے گُر سکھاتی ہو

تمہاری گود ہی میں تو

ہنر ملتے ہے جینے کے،،،

تمہارا ساتھ ہے کیسا

تمہیں کیسے بتاٸیں ہم

ہم احساسوں کے سمندر کو

کن لفظوں میں سمو دیں کہ

تمہاری تفسیر بن جاۓ

تمہاری تعبیر مل جاۓ

کہ تم تو خواب لگتی ہو

سراپا ایک دعا سی ہو

کہ تم مورت ہو ممتا کی

تمہیں ہی دیکھ کر ہم کو

زندگی کا احساس ہوتا ہے

تمہارا ہاتھ تھامے تو

لگےدنیا ہےمٹھی میں

تمہاری مسکراہٹ میں

چھپی ہے دل کی ہر راحت

تمہاری تڑپن امر ہے تاحشر

جو پتھر چیر کر

آبِ زم زم کو رواں کردے

کہیں کیسے لکھیں کیا کیا

کہ ہم تو ہیں فقط ایک جز

مگر،،،

تم اپنی ذات میں کل ہو،،

فقط اتنی دعا ہیکہ

میرے رب تو سلامت رکھ

ہر ایک ماں کو

کہ جنت دے کر یا رب

پھر چھینی نہیں جاتی

منیبہ بیتاب