حاصلِ تصور
فضا جب دھند لکوں کی زد میں تھی
چہرہ چھپائے اونچے پربتوں پر
سانس لینے پر گلے تک پہنچنے والی ٹھنڈ
سر سبز درخت سے گھری وادیوں میں
پرندوں کی چہچہاہٹ گونجتی تھی
برف کی تہوں سے نکلتے نیم گرم جھرنے کا ساز
جس سے جھک کر پانی پیتے بارہ سنگھے کا
عکس جھلملا رہا تھا
ہلکی ہلکی ہوا سے
درختوں کے پتے رقص کرتے،
پرندے گیت گاتے تھے۔
کبلا خان کی نظم جیسی
ایک خوبصورت دوشیزہ
جس کی لمبے سیاہ بال
ایک بڑی سی چٹان پر
جسے اس کے سفید لباس
نے نور بخشا ہوا ہے
پر بیٹھی اسی خوبصورت منظر میں
رنگ و رامش بخشتی
اپنا موسیقی کا آلہ اٹھائے
خاموشی کی اس دبیز چادر کو
اس سما سے ایسے اتارتی تھی
جیسے کہ
رات کی کالی چادر کو
سورج کی کرنیں اپنی ہاتھوں سے
لپیٹ دیتی ہیں۔
وہی ایک رانجھے جیسا
شہزادہ
اپنی بانسری اُٹھائے شہزادی کا ساتھ دیتا لیکن
یہ ساتھ تھا ہوائوں کا
دور سے رابطوں کا!
آسمان کی کیا ہی بات تھی،
جہاں بادل تیرتے پھرتے تھے
جن میں ہیروں سی چمک رکھے
برف کے گال،
بس اس چوٹی کو لمس بخشے کو بے تاب ہوتے تھے۔
انھی بے تاب بادلوں کو،
ماں کا پیار کرتا سورج
اپنی ہلکی تپش سے نوازتا
ماں کی ممتا جیسا
اوڑھ میں چمکتے مسکراتا نظر آتا تھا۔
دور کھڑے اس شہزادے نے
زمین پر دیکھا جنت کا ٹکڑا
جس میں پھرتی ایک حور
آنکھوں کی رنگین پتلیوں پر اپنا رقص چھوڑ گئی۔
اسی سر زمین پر
جہاں پر تتلیوں کے جوڑے
پنکھ پھیلاتے اڑتے ،پھولوں سے
اظہار محبت کرتے دیکھائی دیتے تھے۔
فیصلہ ہوا،وہ وہیں جا بسا
وہی دوشیزہ حوا کی اولاد
اور مہاجر شخص( آدم سے وابستہ)
وہاں بسنے لگے۔
پھولوں نے رخت سفر باندھا
خوشبو نے چادر تان کی
تتلیوں کے جوڑے غائب ہوئے
شبنم کے قطرے سورج کی پوجا کرتے نظر آتش ہو گئے۔
آہستہ آہستہ آوازوں میں اضافہ ہونے لگا
قدموں کے نشان بڑھنے لگے۔
درختوں کو کاٹ دیا گیا
اور خوبصورت رہنے کی جھونپڑیاں میدانوں میں
اتر آئیں
پریاں رخصت ہوئیں
بادل اب کے مرجھانے لگے۔
پتے ساز کو چھیڑتے
ہوائیں ساتھ ناں دیتیں
پرندے کے گلوں میں ڈور اٹک گئی
دانا ختم ہونے لگا۔
بارہ سنگھا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
پربت پر شور بڑھ گیا۔
سال گزر گئے
پہاڑ کو چیر کر راہ بنایا گیا
غار کے اندھیروں میں چھپی چمگادڑ نے جنگل چھوڑ دیا۔
شہد کی مکھیوں نے رابطہ منقطع کیا۔انسان کے رابطے بڑھ گئے۔
وہ دوسری چوٹی تک پہنچ گیا۔
انسان ترقی کر گیا۔
اب دھندلکوں کے بجائے
فضا میں دھواں نظر آنے لگا
درختوں کے بجائے
ونڈ ٹاور آ گئے۔
سمندر نے شفاف پانی کو
جھاگ زدہ گندے سبز مائل لیکویڈ سے بدل لیا
مچھلیاں بے تاب ہو گئیں۔
خوبصورتی جاتی رہی۔
بے رونقی بڑھنے لگی۔
جن غاروں سے جھرنے نکلتے تھے
اب وہاں کے دہانوں سے گند برآمد ہوتا ہے۔
سر ،ساز،رنگ،ہنگم،خوبصورتی،رونق،برف کی تہہ سے نکلتا شفاف پانی،خوبصورت کوئل کی گائیکی، بلبل کی پکار،مور کا رقص،ہرن کی چال،شیر کی دھاڑ،ہاتھی کی دھمک،بارش کی آواز ،بادلوں کی گرج سب سے بڑھ کر وہ میری سوندھی سوندھی خوشبو جس پر مجھے ناز تھا۔
افسوس! وہ سب جا چکا ہے۔
وہ بارش کا پانی جب میرے چہرے پر
اپنا لمس چھوڑتا تھا۔
وہ خوشبو جو مجھے عطا کی گئی
وہ خوبصورتی جو مجھ سے چھین لی گئی۔
مجھے ایک خرد مند چاہیے تھا۔
مجھے ایک خرد مند ملا
خرد مند محنت پسند
میں ایک سوچ میں ہوں
(خرد مند سوچتا ہے)
مجھے وہی منظر دوبارہ چاہیے۔
وہی تتلیاں جو مجھ سے روٹھ گئیں
وہ پریاں جو پرستاں سدھار گئیں
وہ دوشیزہ جو چھپ گئی
وہ نور جو آنکھوں سے دور ہوا
وہ بارہ سنگھا جو کسی غار میں گم ہوا
وہ شہد کی مکھیاں جو مریخ پر جا بسیں
وہ جھرنے جو سوکھ گئے
وہ مچھلیاں جو تڑپ تڑپ کر مر گئیں
وہ بادل جن میں عشق کا راز تھا
وہ سورج جس میں ممتا تھی
وہ ہرنی جو کھیلتی کودتی تھی
خرد مند کو سب چاہیے تھا
چاروں طرف نگاہ جاتی ہے،
اونچی اونچی عمارتیں،
گند سے بھرے میدان،
فضا میں اٹھتا دھواں،
لوگوں کی بھیڑ،
بے ہنگم آوازوں کا شور،
سب چیزیں موجود ہیں
لیکن شکل بدل چکی ہے۔
خرد مند بے بس دیکھائی دیتا ہے
لیکن
"اب میں ایک سوچ میں ہوں"
(میں : زمین)
خرد مند محنت پسند اگر ہے,
تو وہ درخت لگانے شروع کرے گا
درخت بڑھتے ہی
فضا صاف ہو گی۔
پھر ایک دن آئے گا۔
آکسیجن فراہم کرنے والا۔ چار افراد کے خاندان کے لیے ایک دن کی قیمتی آکسیجن ایک درخت فراہم کرے گا
منی سیور۔ ...
پاور انویسٹر۔ ...
ایمیشن کمبیٹر۔ ...
ہوا صاف کرنے والا. ...
قدرتی کولنٹ۔ ...
تناؤ کم کرنے والا۔ ...
طاقت بچانے والا.
وہی درخت جو مجھے سکون دے گا
نالوں سے گند صاف ہو گا
بلبل دیس لوٹیں گے
بارہ سنگھا جھرنے سے ڈرتے ڈرتے ہانی پیئے گا
لیکن اس کی حیرت کی انتہا ناں رہے گی
جب پانی نیم گرم اور برف سے پھوٹتا نظر آئے گا
وہ شوخی سے ایک جام اور نوش کرے گا
اور ہنستا کودتا انھی درختوں کے درمیان گم ہو جائے گا۔
بادل یتیم پربت کے سر پر ہاتھ رکھے گا
سفید گالوں کا خزانہ اس کے نام کرے گا
میں دوبارہ ویسی ہو جاؤں گی
دوشیزہ اپنا سر لگائے گی
شہزادہ راگ بجائے گا۔
میں زمین مسکراؤں گی
میں واپس کھلکھلاوں گی
امید پہ دنیا قائم ہے
میں لوٹ کر واپس آؤں گی
میں سوچ سے واپس آؤں گی۔
صائمہ طاہر