یادگارِ اسلاف حضرت العلامہ پیر سیّد منور حسین شاہ گردیزی رحمتہ اللہ علیہ
(ایک عہد جو تمام ہوا)
نقطہ نظر/سید راشد گردیزی چشتی
الحمد للّٰہ و کفیٰ و سلام ٌ علی عبادہِ الّذین الصطفیٰ اَمَّا بعد فاعوذُ باللّٰہ من الشیطن۔ الرجیم بسم اللّٰہ الرحمن الرّحیم۔ کُل مَنْ علیھا فانٍ وَّ ویَبقیٰ وجہٗ ربک ذوالجلال والاکرام۔قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” مَوت العالِم موتَ العالَم۔خالق کائنات اپنی پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے کہ ” زمین پر جو کچھ بھی ہے سب کو فنا ہے اور باقی ہے تمہارے رب کی ذات جو عظمت و بزرگی والا ہے۔امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ” ایک عالم کی موت پورے عالَم کی موت ہے۔ایک دوسری حدیث کا مفہوم ہے علماء کی موت سے علم اٹھا لیا جائے ا یعنی انسانیت ان فیوض و برکات سے محروم ہو جائے گی جو دنیا میں عالم کی موجودگی کے باعث انہیں میسر تھیں۔
قارئین محترم اس دارِ فانی میں جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن یہاں سے کوچ کرنا ہے ۔لیکن کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے انتقال سے ایک نہ پورا ہونے والا خلا پیدا ہوتا محسوس ہوتا ہے اور ایک لمحہ تو دنیا واقعتا اندھیر سی ہوجاتی ہے۔حضرت العلامہ پیر سیّد منور حسین شاہ ؒ کی وفات ِ حسرت آیات یقینااسی زُمرے میں آتی ہے۔خطہ کشمیر بالخصوص سرزمین پونچھ میں جو دینی ،علمی و روحانی خلا پیدا ہوا ہے اس کے پر ہونے کی کوئی صورت اس نفسا نفسی کے عالم اور پُر فتن دور میں دور دور تک نظر آتی ۔
الحمد للّٰہ و کفیٰ و سلام ٌ علی عبادہِ الّذین الصطفیٰ اَمَّا بعد فاعوذُ باللّٰہ من الشیطن۔ الرجیم بسم اللّٰہ الرحمن الرّحیم۔ کُل مَنْ علیھا فانٍ وَّ ویَبقیٰ وجہٗ ربک ذوالجلال والاکرام۔قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” مَوت العالِم موتَ العالَم۔خالق کائنات اپنی پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے کہ ” زمین پر جو کچھ بھی ہے سب کو فنا ہے اور باقی ہے تمہارے رب کی ذات جو عظمت و بزرگی والا ہے۔امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ” ایک عالم کی موت پورے عالَم کی موت ہے۔ایک دوسری حدیث کا مفہوم ہے علماء کی موت سے علم اٹھا لیا جائے ا یعنی انسانیت ان فیوض و برکات سے محروم ہو جائے گی جو دنیا میں عالم کی موجودگی کے باعث انہیں میسر تھیں۔
قارئین محترم اس دارِ فانی میں جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن یہاں سے کوچ کرنا ہے ۔لیکن کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے انتقال سے ایک نہ پورا ہونے والا خلا پیدا ہوتا محسوس ہوتا ہے اور ایک لمحہ تو دنیا واقعتا اندھیر سی ہوجاتی ہے۔حضرت العلامہ پیر سیّد منور حسین شاہ ؒ کی وفات ِ حسرت آیات یقینااسی زُمرے میں آتی ہے۔خطہ کشمیر بالخصوص سرزمین پونچھ میں جو دینی ،علمی و روحانی خلا پیدا ہوا ہے اس کے پر ہونے کی کوئی صورت اس نفسا نفسی کے عالم اور پُر فتن دور میں دور دور تک نظر آتی ۔
حضرت العلامہ پیر سیّد منور حسین شاہ گردیزی ؒ ایک عالم با عمل اور ولی کامل تھے۔آپؒ کی ولادت با سعادت 1934 میں پانیولہ کے گائوں کوٹیڑی سیّداں میں ہوئی۔آپؒ کے والد محترم کا ناپیر سیّد موسیٰ شاہ ؒ تھا جو ولی کامل تھے۔آپؒ کے دادا محترم حضرت پیر سیّد محمد فضل شاہ گردیزی چشتی ؒ اپنے وقت کے اکابر علماء اور اولیاء کاملین میں سے تھے۔آپؒ کا شجرہ نسب حُسینی ہے اور سنتیس پشتوں کے بعد امام الاولیاء و امام الاصفیاء حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے۔
آپؒ نے ایک علمی اور روحانی میں گھرانے میں آنکھ کھولی ۔آپؒ کا دادیال اور ننھیال دونوں علمی ،ادبی اور روحانی گھرانے ہیں۔آپؒ نے قرآن کریم اور ابتدائی دینی تعلیم اپنے حقیقی ماموں جان حضرت مولانا پیر سیّد ثناء اللہ شاہ ؒ سے حاصل کی جو اپنے وقت میں مرکزی جامع مسجد باغ کے امام و خطبیب تھے اور حضرت پیر سید جنید شاہ قدس سرہ باغ میں زیادہ تر انہی کی مسجد میں قیام فرماتے تھے۔اس کے علاوہ صرف و نحو بھی انہیں سے سیکھی ۔اس کے بعد آپؒ مزید تعلیم کے حصول کے لیے لاہور تشریف لے گئے اور معروف دینی درسگاہ ” حزب الاحناف ” میں معروف عالم دین ،مفسر قرآن ابوالاحسنات سیّد احمد قادری ؒ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔سیّد احمد قادری ؒ نے تفسیر حسانات کے نام سے تفسیر قرآن کریم لکھی ۔آپ ؒ سیدنا داتا علی ہجویریؒ کے قدموں میں مدفون ہوئے۔علامہ پیر سید منورحسین شاہ ؒ کے معروف سکالر محمود احمد غزنوی جو کہ روہیت ہلال کمیٹی کے چیئر مین تھے کے ساتھ بھی اچھے مراسم رہے۔لاہور میں تعلیم کے حصول کے بعد آپؒ پاک فوج میں بطور نائب خطیب تعینات ہوئے ۔پاک فوج میں دوران سروس فاضل عربی اور ادیب عربی کا کورس مکمل کیا ۔پاک فوج میں تقریباً پینتیس سال ملازمت کے بعد 1985 ء میں ریٹائرمنٹ حاصل کی ۔1985 ء میں اپنے گائوں کوٹیڑی سیّداں تشریف لے آئے ۔اس وقت جامع مسجد چشتیہ کوٹیڑی سیّداں میں مولانا سیّد نذیر حسین شاہ ؒ امام و خطیب تھے ۔
نقطہ نظر/سید راشد گردیزی چشتی
یادگارِ اسلاف حضرت العلامہ پیر سیّد منور حسین شاہ گردیزی رحمتہ اللہ علیہ(ایک عہد جو تمام ہوا)
editState Views 0 تبصرے
الحمد للّٰہ و کفیٰ و سلام ٌ علی عبادہِ الّذین الصطفیٰ اَمَّا بعد فاعوذُ باللّٰہ من الشیطن۔ الرجیم بسم اللّٰہ الرحمن الرّحیم۔ کُل مَنْ علیھا فانٍ وَّ ویَبقیٰ وجہٗ ربک ذوالجلال والاکرام۔قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” مَوت العالِم موتَ العالَم۔خالق کائنات اپنی پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے کہ ” زمین پر جو کچھ بھی ہے سب کو فنا ہے اور باقی ہے تمہارے رب کی ذات جو عظمت و بزرگی والا ہے۔امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ” ایک عالم کی موت پورے عالَم کی موت ہے۔ایک دوسری حدیث کا مفہوم ہے علماء کی موت سے علم اٹھا لیا جائے ا یعنی انسانیت ان فیوض و برکات سے محروم ہو جائے گی جو دنیا میں عالم کی موجودگی کے باعث انہیں میسر تھیں۔
قارئین محترم اس دارِ فانی میں جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن یہاں سے کوچ کرنا ہے ۔لیکن کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے انتقال سے ایک نہ پورا ہونے والا خلا پیدا ہوتا محسوس ہوتا ہے اور ایک لمحہ تو دنیا واقعتا اندھیر سی ہوجاتی ہے۔حضرت العلامہ پیر سیّد منور حسین شاہ ؒ کی وفات ِ حسرت آیات یقینااسی زُمرے میں آتی ہے۔خطہ کشمیر بالخصوص سرزمین پونچھ میں جو دینی ،علمی و روحانی خلا پیدا ہوا ہے اس کے پر ہونے کی کوئی صورت اس نفسا نفسی کے عالم اور پُر فتن دور میں دور دور تک نظر آتی ۔
حضرت العلامہ پیر سیّد منور حسین شاہ گردیزی ؒ ایک عالم با عمل اور ولی کامل تھے۔آپؒ کی ولادت با سعادت 1934 میں پانیولہ کے گائوں کوٹیڑی سیّداں میں ہوئی۔آپؒ کے والد محترم کا ناپیر سیّد موسیٰ شاہ ؒ تھا جو ولی کامل تھے۔آپؒ کے دادا محترم حضرت پیر سیّد محمد فضل شاہ گردیزی چشتی ؒ اپنے وقت کے اکابر علماء اور اولیاء کاملین میں سے تھے۔آپؒ کا شجرہ نسب حُسینی ہے اور سنتیس پشتوں کے بعد امام الاولیاء و امام الاصفیاء حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے۔
آپؒ نے ایک علمی اور روحانی میں گھرانے میں آنکھ کھولی ۔آپؒ کا دادیال اور ننھیال دونوں علمی ،ادبی اور روحانی گھرانے ہیں۔آپؒ نے قرآن کریم اور ابتدائی دینی تعلیم اپنے حقیقی ماموں جان حضرت مولانا پیر سیّد ثناء اللہ شاہ ؒ سے حاصل کی جو اپنے وقت میں مرکزی جامع مسجد باغ کے امام و خطبیب تھے اور حضرت پیر سید جنید شاہ قدس سرہ باغ میں زیادہ تر انہی کی مسجد میں قیام فرماتے تھے۔اس کے علاوہ صرف و نحو بھی انہیں سے سیکھی ۔اس کے بعد آپؒ مزید تعلیم کے حصول کے لیے لاہور تشریف لے گئے اور معروف دینی درسگاہ ” حزب الاحناف ” میں معروف عالم دین ،مفسر قرآن ابوالاحسنات سیّد احمد قادری ؒ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔
سیّد احمد قادری ؒ نے تفسیر حسانات کے نام سے تفسیر قرآن کریم لکھی ۔آپ ؒ سیدنا داتا علی ہجویریؒ کے قدموں میں مدفون ہوئے۔علامہ پیر سید منورحسین شاہ ؒ کے معروف سکالر محمود احمد غزنوی جو کہ روہیت ہلال کمیٹی کے چیئر مین تھے کے ساتھ بھی اچھے مراسم رہے۔لاہور میں تعلیم کے حصول کے بعد آپؒ پاک فوج میں بطور نائب خطیب تعینات ہوئے ۔پاک فوج میں دوران سروس فاضل عربی اور ادیب عربی کا کورس مکمل کیا ۔پاک فوج میں تقریباً پینتیس سال ملازمت کے بعد 1985 ء میں ریٹائرمنٹ حاصل کی ۔1985 ء میں اپنے گائوں کوٹیڑی سیّداں تشریف لے آئے ۔اس وقت جامع مسجد چشتیہ کوٹیڑی سیّداں میں مولانا سیّد نذیر حسین شاہ ؒ امام و خطیب تھے ۔
علاوہ ازیں آپؒ دس ناڑہ چیروٹی مسجد میں بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے۔ مولا نا سید نذیر حسین شاہ ؒ کی وفات کے بعد علامہ پیر سیّد منور حسین شاہ ؒ نے جامع مسجد چشتیہ کوٹیڑی سیداں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینا شروع کیے کچھ عرصہ آپؒ کے بھائی مولانا سیّد یمین اللہ شاہ ؒ نے بھی امامت و خطابت کی۔مولانا نذیر حسین شاہ ؒ کی وفات کے بعد عوام علاقہ چیروٹی کے اصرار پر علامہ پیر سیّد منور حسین شاہ ؒ نے جامع مسجد چشتیہ کوٹیڑی سیداں کے علاوہ دس ناڑے چیروٹی مسجد میں بھی لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینا شروع کی اور ہزاروں کی تعدا دم میں لوگوں کو قرآن کریم اور دینی تعلیم سے روشناس کیا۔اس کے علاوہ آپؒ پاچھیوٹ میں نکاح خوانی کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔
تقریباً2005 ء تک جامع مسجد چشتیہ میںامامت و خطابت کا فریضہ ادا کرتے رہے ،خرابی صحت اور ضعف کی وجہ سے خطابت کے فرائض مولانا قاری سید حاکم شاہ صاحب کے سپرد کیے اور خود نماز جمعہ اور پنجگانہ نماز پڑھاتے رہے۔2017 میں صحت مزید خراب ہوتی گئی اور ضعف بھی بڑتا گیا جس کی وجہ سے امامت کی ذمہ داری بھی مولانا قاری سید حاکم شاہ صاحب کے سپر دکی لیکن آخری وقت تک کمزور ی کے باوجود مسجد میں ہی باجماعت نماز ادا کرتے رہے۔حتی کی نماز تروایح بھی ادا کرنے کے لیے مسجد میں تشریف لے آتے۔حضرت العلامہ پیر سیّد منور حسین شاہ ؒ نے مجدد العصر فاتح قادیانیت پیر سیّد مہر علی شاہ قدس سرہ کے پوتے حضرت پیر سیّد غلام معین الدین گیلانی ؒ المعروف بڑے لالہ جی کے دست حق پر بیعت کی اور خرقہ خلافت بھی حاصل کیاَ.
راقم التحریر نے حضرت پیر سیّد جنید شاہ گردیزی رحمتہ اللہ علیہ کی سوانح حیات مرتب کرنے کے دوران علامہ پیر سید منور حسین شاہ ؒ سے ملاقات کی اور آپ سے حضرت پیر صاحب ؒ کی حیات مبارکہ کے حوالا سے معلومات حاصل کرنا چاہیں تو آپ ؒ نے بے حد خوشی کا اظہار فرمایا اور حضرت پیر صاحب ؒ اور اپنے بزگوں کی حیات مبارکہ کے حوالہ سے انتہائی مفید معلومات فراہم فرمائیں۔آپؒ فرماتے تھے کہ میں باغ میں حصول تعلیم کے دوران گھر واپسی پر حضرت پیر سید جنید شاہ ؒ کے بارگاہ میں حاضر خدمت ہوتا مجھے ان سے خاص لگائو تھا۔حضرت پیر صاحب بھی مجھ پر کمال شفقت فرماتے اور میری ہر معاملہ میں رہنمائی فرماتے اور مجھے سختی سے شریعت کی پابندی کی تلقین فرماتے ۔
آپؒ نے فرمایا کہ آپ یوں سمجھو کہ میری طرز حیات مکمل طور پر حضرت پیر سید جنید شاہ ؒ کی منشاء کے مطابق ہے۔آپؒ نے اپنے والد بزگوار کے علاوہ مولانا پیر سیّد ثناء اللہ شاہ ؒ ، گولڑہ شریف اور حضرت پیر سیّد جنید شاہؒ سے روحانی فیض حاصل کیاَ لیکن آپؒ کے بقول انہیں سب سے زیادہ عقیدت حضرت پیر سید جنید شاہ ؒ سے تھی۔آپؒ جب تک تندرست رہے روزانہ نماز ظہر کے بعد حضرت پیر سیّد جنید شاہ ؒ کے دربار پر حاضری دیتے اور قرآن کریم دیر تک تلاوت کرتے۔حضرت پیر سیّد منور حسین شاہ ؒ انتہائی مخلص ،شفیق اور ہمدرد شخص تھے ۔تحریر و تقریر میں بے باک اور حق گو تھے۔
شب بیداری آپؒ کا معمول تھا ،زیادہ وقت عبادت و ریاضت میں گزرتا آپ تلاوت کلام پاک کثرت سے فرماتے تھے۔ آخری وقت تک سلسلہ چشتیہ کے اوراد و وظائف معمول میں رہے۔آپؒ سے تمام قبائل کے افراد بے حد محبت و عقیدت رکھتے تھے ۔ خوشی ہو یا غمی ہر کسی کی خواہش ہوتی تھی کہ آپؒ ان کی محافل میں جلوہ افروز ہوں ۔ دور دراز سے لوگ حصول برکت کے لیے اور نماز جنازہ پڑھانے کے لیے لے جاتے تھے۔ہماری تمام مذہبی اور سماجی محافل میں رونق آّپؒ سے تھی جب تک تندرست رہے تمام محافل کی صدارت آپ ہی فرماتے رہے اور جب محافل میں شرکت کرنا دشوار ہوا تو بھی احتراماً اور عقیدتاً اہلیان علاقہ صدارت کی جگہ آپؒ کے لیے خالی رکھتے تھے۔
آپؒ نے ہزاروں افراد کو قرآن کریم اور شریعت مطہرہ کی تعلیم دی ،آپؒ کے تعویزات اور دم وغیرہ سے بھی ہزاروں افراد نے شفاء پائی۔آپؒ اس پورے خطہ کے لیے باعث رحمت و برکت تھے ۔آپؒ کے اعلیٰ اخلاق نے ہر شخص کو گرویدہ کر رکھا تھا۔ لیکن فطرت کا اصول ہے کہ جو بھی اس جہانِ فانی میں آیا اسے ایک روز یہاں سے رحت سفر باندھنا ہے۔آپؒ علیل تو تھے ہی مگر آخری ایام میں سانس کی تکلیف میںمبتلا ہوگئے جو جان لیوا ثابت ہوئی۔بالاخر 06 ربیع الثانی بروز پیر بمطابق 23 نومبر صبح اذان فجر کے وقت داعی اجل کو لبیک کہا اور ہزاروں چاہنے والوں کو سوگوار کر گئے۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
آپؒ کی نماز جنازہ آپؒ کی وصیت کے مطابق مولانا پیر سیّد ثناء اللہ شاہ ؒ کے فرزند مولانا سیّد اطاء اللہ شاہ صاحب خطیب جامع مسجد باغ نے پڑھائی۔نماز جنازہ میں ہزاروںکی تعداد میں صحافی حضرات ،وکلاء ،سیاسی و سماجی رہنمائوں ،ضلعی انتظامیہ کے آفیسران ن اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔لحد مبارک آپؒ نے اپنی حیات مبارکہ ہی میں خود تعمیر کروا رکھی تھی۔آپؒ کو اپنے والد محترم کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا۔آپؒ کے ایک ہی صاحبزادے سیّد مسعود احمد گردیزی ہیں جو کہ سینئر صحافی اور سنٹرل یونین آف جنرلسٹ پونچھ کے صدر ہیں